Thursday, December 20, 2012

حیدر قریشی کی کتاب منظر اور پس منظر کی تقریب رونمائی

آسٹریا میں حیدر قریشی کی کتاب
 منظر اور پس منظر 
کی تقریب رونمائی
چند تصاویر اور رپورٹس 
اور حیدر قریشی کی تقریر
حیدر قریشی،خورشید علی اور آفتاب حسین
.......................................................

حاضرین کی ایک جھلک
.............................

آفتاب حسین
  کلام سناتے ہوئے
........................
شرکائے محفل
......................
حاضرین کی ایک جھلک
.............................
حیدر قریشی
تقریر کرتے ہوئے.....کلام سناتے ہوئے
..............................................
آسٹروایشین فورم کی جانب سے اعلان کردہ ایوارڈز اور انعامات
حیدر قریشی ،۔۔آفتاب حسین کو ایوارڈ دیتے ہوئے
......................................................
آسٹروایشین فورم کی جانب سے اعلان کردہ ایوارڈز اور انعامات
  حیدر قریشی ،..........ایوارڈ دیتے ہوئے
..............................................

آسٹروایشین فورم کی جانب سے اعلان کردہ ایوارڈز اور انعامات
 حیدر قریشی ،..........ایوارڈ دیتے ہوئے
..............................................


آسٹروایشین فورم کی جانب سے اعلان کردہ ایوارڈز اور انعامات
 حیدر قریشی ،۔۔خورشید علی کو ایوارڈ دیتے ہوئے
..............................................
  آسٹرو ایشین فورم سنکٹ پولٹن،آسٹریا کے زیر اہتمام
حیدر قریشی کی کتاب منظر اور پس منظر
   کی تقریب رونمائی اور مشاعرہ
رپورٹ:طارق محمود  
(وینر نوئے شٹات۔آسٹریا)

مورخہ ۱۹؍ جون ۲۰۰۴ء کو آسٹرو ایشین فورم سنکٹ پولٹن آسٹریا کے زیر اہتمام حالاتِ حاضرہ کے حوالے سے لکھے گئے حیدر قریشی کے کالموں کی کتاب منظراور پس منظر کی تقریب رونمائی ہوئی۔تقریب کے صدر حیدر قریشی تھے۔جبکہ مہمانانِ خصوصی میں ویانا یونیورسٹی میں اردو کے استاد پروفیسر آفتاب حسین،جرمنی میں اردو جرمن زبان کی لغت کے مصنف و مولف خورشید علی،مولانا غلام مصطفی بلوچ اور پاکستانی سفارتخانہ ویاناکے رانا عبدا لسلام شامل تھے۔نظامت کے فرائض نعمیر اخترنے انجام دئیے۔ تلاوت کلام پاک کی سعادت حافظ حفیظ نے اور نعتِ پاک سنانے کی سعادت شہر یار نے حاصل کی۔ آسٹرو ایشین فورم کے سالزبرگ یونٹ کے صدر عبدالسلام، فورم کے جنرل سیکریٹری طارق محمود،فنانس سیکریٹری امجد حسین چٹھہ،اسلامک سنٹر سنکٹ پوٹن کے سربراہ مولانا غلام مصطفی،صدر حلقۂ ادب ویانا انور جمال فاروقی،نائب صدر حلقۂ ادب مظہر عباس نے حیدر قریشی کو آسٹریا میں آمد پر اور ان کی کتاب کی اشاعت پر مبارکباد دیتے ہوئے ان کے جذبوں کی تعریف کی۔ پاکستانی سفارت خانہ ویانا کے رانا عبدالسلام نے کتاب پر تفصیلی مضمون پڑھ کر سنایا۔اور حیدر قریشی کے مخلصانہ تجزیاتی انداز کی تعریف کی۔ انہوں نے کہا کہ بعض تجزیوں میں بعض علماء کا براہ راست نام نہ لیا جاتا تو زیادہ بہتر تھا۔ پروفیسر آفتاب حسین نے حیدر قریشی کی ادبی خدمات کا تفصیل سے ذکر کرتے ہوئے اس زمانے کا بطور خاص ذکر کیا جب وہ خانپور میں رہتے ہوئے اہلِ لاہور کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہوچکے تھے۔پروفیسر آفتاب حسین نے حیدرقریشی کے ادبی اصولوں اور ادب و صحافت کے بنیادی فرق پر روشنی ڈالتے ہوئے کتاب منظر اور پس منظر کے اہم اور بنیادی تھیسس کو اجاگر کیا۔حیدر قریشی نے سب سے پہلے اس تقریب میں اپنی شرکت کی وجہ بتاتے ہوئے حاضرین کو ہنسایا اور پھر اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہوئے بے حد فکرمند بھی کردیا تاہم انہوں نے حالات کا بغور تجزیہ کرتے ہوئے امید کی ایک موم بتی بھی جلادی۔آخر میں آسٹرو ایشین فورم آسٹریا کے آرگنائزر اور چئیر مین اختر بیگ نے اختتامی کلمات کہے۔
اس سیشن کے بعد مشاعرہ کا اہتمام کیا گیا ۔اس میں ان شعراء کرام نے اپنا کلام سنایا۔نعیم رضا،محمود عالم،انور جمال فاروقی،مظہر عباس، غلام مصطفی بلوچ، رانا عبدالسلام، اختربیگ،پروفیسر آفتاب حسین اور حیدرقریشی۔ مشاعرہ کے اختتام پر اشتیاق احمد عاقل ہیڈ چانسری سفارت خانہ پاکستان ویانا اختتامی کلمات کہیاور اختر بیگ نے فورم کے تمام ارکان اور مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔ ۔آخر میں بعض اہم شعراء اور شرکاء کو ایوارڈز اور انعامات دئیے گئے۔تقریب کے دیگر اہم شرکاء میں پاک نیشنل ایسوسی ایشن کے صدر بشیر ناصر،حامد،جاوید اختر،داؤد خان،علی شاہ،عدنان بیگ،حاجی قاسم، امجد بھٹی،محمد انور،سہیل بٹ،محمد امین ارائیں،حسین شاہ،محمد یوسف ہنجراہ،چوہدری اسد عباس،شہزاد احمد اور دیگرشامل تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


آسٹریا میں’’منظر اور پس منظر‘‘ کی تقریب

حیدر قریشی کی  صدارتی تقریر

معزز حاضرین! السلام علیکم
سب سے پہلے تو میں آسٹرو ایشین فورم سنکٹ پولٹن کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے آج کی تقریب میں مجھے اور میری کتاب ’’منظر اور پس منظر‘‘کو یاد رکھا۔ اس کے بعد ویانا یونیورسٹی سے تشریف لانے والے اپنے دوست پروفیسر آفتاب حسین کا شکر گزار ہوں کہ ایک طویل عرصہ کے بعد یکایک ان سے ملاقات ایک سرپرائز سے کم نہیں ہے۔ان کے بعد میں بطور خاص اختر بیگ صاحب اور جرمنی کے اپنے دوست خورشید علی صاحب کا شکریہ ادا کرنا واجب سمجھتا ہوں،لیکن ان کا شکریہ ادا کرنے کے لئے مجھے تھوڑی سی وضاحت کرنے کی اجازت دیجئے۔
جیسے ہی میری کتاب پاکستان سے چھپنے کی خبر کی تصدیق ہوئی اختر بیگ صاحب نے کسی صلاح مشورے کے بغیر جون کے آسٹرین ٹائمز کے ٹائٹل پر اسے سجا کر اس کی تقریب رونمائی کی تاریخ کا اعلان کردیا۔جب میرا ان سے رابطہ ہوا تو میں نے ان سے معذرت چاہی کہ میں اس تقریب میں شرکت نہیں کر سکوں گا۔ انکار کی دو وجوہات تھیں۔ ایک وجہ تو یہ کہ میرے لئے فرینکفرٹ سے یہاں سنکٹ پولٹن تک پہنچنے کے لئے کوئی سہولت میسر نہیں تھی۔دوسری وجہ یہ کہ ۳۳ سال سے شعرو ادب کی دنیا سے وابستہ رہنے کے باوجود آج تک میری کسی کتاب کی کوئی تقریب نہیں ہوئی،اس لئے میں چاہتا تھا کہ میرا ریکارڈ خراب نہ ہو۔پاکستان سے لے کر مغربی دنیا تک مجھے بخوبی علم ہے کہ کتابوں کی تقریبات رونمائی کے لئے عموماََ صاحبِ کتاب کو خود خرچہ کرنا پڑتا ہے۔اس سہولت کی وجہ سے ایسے ایسے لوگوں کی ایسی ایسی کتابوں کی رونمائیاں ہونے لگی ہیں کہ ادب میں کتاب کی رونمائی اور روسیاہی میں فرق باقی نہیں رہا۔سو ان تمام تحفظات کے باعث میں نے تقریب میں شرکت سے شکریہ کے ساتھ معذرت کر لی تھی۔اسی دوران جرمنی میں اردو جرمن لغت اور اردو جرمن بول چال جیسی کتابوں کے  مولف خورشید علی صاحب کو اس دعوت کا علم ہوا تو انہوں نے کہا کہ اُن لوگوں نے آپ کو اتنی محبت کے ساتھ بلایا ہے اس لئے اس طرح انکار کرنا اچھا نہیں۔ ، میں خود آپ کو لے چلتا ہوں،آپ اس تقریب میں ضرور شرکت کریں۔در اصل خورشید علی صاحب نے ہی میری اس کتاب کی اشاعت کا بندوبست کیا تھا اوراب وہی مجھے یہاں لے کر آئے ہیں۔سو اس لحاظ سے میری یہاں موجودگی میں میرا کوئی قصور نہیں ہے،جو قصور بھی ہے وہ اختر بیگ صاحب کا اور خورشید علی صاحب کا۔اسی لئے ان دونوں کا شکریہ مجھ پر واجب ہے۔جس دوست کو میری وجہ سے بوریت محسوس ہو وہ ان دونوں دوستوں کو اس کا ذمہ دار سمجھیں۔

میں بنیادی طور پر شاعر اور ادیب ہوں۔میری صورتحال گزشتہ ۳۳ سال سے یہ رہی ہے کہ میں اپنے حال میں مست رہا ہوں۔حالاتِ حاضرہ سے متاثرہو کر براہِ راست نیم سیاسی اور نیم ادبی لکھنے کی بجائے ادبی طور پر میں نے ہمیشہ ادب کے داخلی تقاضوں کو اہم جانا ہے۔حالاتِ حاضرہ پر لکھنا یا کالم نگاری میرا مسئلہ نہیں تھا،لیکن نائن الیون کے سانحہ کے بعد جو کچھ دنیا میں ہوتا جا رہا تھا اس کے اثرات اتنے شدید تھے کہ میرے لئے چپ رہنا مشکل ہو گیا۔ایسی کیفیت تھی کہ چُپ رہتا تو دَم گُھٹ جاتا۔چنانچہ ان واقعات کے شدید دباؤ کے باعث میں نے خصوصی طور پر ۲۵ کالم لکھے جو منظر اور پس منظر کے نام سے اردوستان ڈاٹ کام سے لے کر آسٹرین ٹائمز تک چھپتے رہے۔میں نے ایسی فضا میں یہ کالم لکھے جب ہمارے چاروں طرف کالم نگاروں کی بہار آئی ہوئی ہے۔جیسے کرکٹ کے سیزن کے نتیجہ میں ہر گلی،کوچے میں لڑکے بالے کرکٹ کھیلنے لگتے ہیں کچھ اس سے ملتی جلتی صورتحال میں میری کالم نگاری شروع ہوئی اور ایسی ہی صورتحال میں مکمل بھی ہو گئی۔میں نے اپنے کالموں میں جن آنے والے ہولناک ایام کی نشاندہی کی ہے ہم سب بتدریج انہیں ایام کی طرف بڑھتے جا رہے ہیں۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اسلام کی نمائندگی اور ترجمانی کے دعوے کرنے والے تین بڑی سطحوں پر دکھائی دیتے ہیں۔
ایک سطح پر اسلام کے اصل نمائندے کہلانے والے وہ لوگ ہیں جو درپیش حالات کے ردِ عمل میں شدید جذباتی ہو کر نیک نیتی سے کچھ بھی کر گزرنا چاہتے ہیں۔گویا یہ لوگ ہوش کی بجائے صرف جوش سے کام لے رہے ہیں۔
ایک اور سطح پر ایسے اسلامی نمائندگان یا جماعتیں ہیں جو موجودہ نازک حالات میں باالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر غیر ملکی ایجنسیوں سے باقاعدہ رقوم لے کر فرقہ پرستی کو ہوا دینے کے ساتھ ٹکراؤ اور تصادم پر اکساتی رہتی ہیں ۔جبکہ تیسری سطح پر اسلام کے ایسے دعویدار طبقات بھی موجود ہیں جو بڑی قوتوں کے ساتھ ساز باز کرکے عالمِ اسلام کو پیش آنے والے کسی بڑے سیٹ بیک کے بعد خود اسلام کی قیادت کا خواب دیکھ رہے ہیں۔یہ ہے وہ المناک منظر نامہ جس میں اسلامی ممالک کو اسلامی تاریخ کا سب سے بڑا چیلنج درپیش ہے اور کہیں بھی، کسی سطح پر بھی ایسی قیادت دکھائی نہیں دیتی جو اسلامی دنیا کو اس سنگین بحران سے نکال کر لے جائے،ایسا بحران جو حقیقتاََ ایک سازش کے تحت عالمِ اسلام پر مسلط کردیا گیا ہے۔
مجھے افسوس ہے کہ اس وقت واقعتاََ پوری اسلامی دنیا قیادت کے فقدان کے بحران کا شکار ہے۔ہر سطح پر نفسا نفسی اور فرقہ پرستی کا زہر سرایت کر چکا ہے۔کوئی بھی گروہ یا طبقہ اپنے گروہی یا طبقاتی مفادات سے اوپر اُٹھ کر دیکھنے کی صلاحیت سے ہی عاری ہو چکا ہے۔حتیٰ کہ ہمارے دانشور جو کسی حد تک قیادت کے فقدان کی تلافی کر سکتے تھے،بہ استثنائے چند وہ بھی اپنے نام اور اپنی شان کے چکر میں اس حد تک گھِر گئے ہیں کہ ان سے بھی کسی موثر رہنمائی کی توقع نہیں رہی۔سارے اسلامی ملکوں کی عمومی صورتحال یہی ہے۔دوسری طرف صلیبی جنگوں کااعلان کرنے والے اپنے ایجنڈے کے مطابق بتدریج آگے بڑھ رہے ہیں اور اب فلسطین سے بڑھ کر خود ارضِ حجاز کی سلامتی کا مسئلہ دامنگیر ہوتا جا رہا ہے۔حالات بہت مایوس کن ہیں اس کے باوجود بقول علامہ اقبال ؂
تُو نہ مٹ جائے گا ایران کے مٹ جانے سے
نشۂ مَے کو تعلق نہیں پیمانے سے
ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
بس ایسا ہے کہ ابھی تک ہمیں اپنی انفرادی اور اجتماعی غلطیوں کے اعتراف اور ان کی تلافی کرنے کی توفیق نہیں مل رہی۔جب بہت زیادہ تکلیف کے دن ہوں گے تب اپنا اپنا محاسبہ کرنے کی توفیق ملے گی۔جب غلطیوں اور گناہوں کا احساس بیدار ہوجائے گا تو پھر یہ دنیا ہی نہیں دنیا کی تقدیر بھی مسلمانوں کے ہاتھ میں ہو گی۔بقول علامہ اقبال ؂
کی محمد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
یہاں ایک وضاحت کر دوں کہ آج کے عہد میں علامہ اقبال کی شاعری نئے سرے سے تازہ ہوئی ہے۔جن دوستوں کو آج کے مسائل پر بہت زیادہ اضطراب محسوس ہو اقبالؔ کی شاعری کو پڑھیں تو انہیں کسی قدر سکون ملے گا،ایک امید بندھے گی۔میں ادب میں سیاست کے گہرے اثرات کا قائل نہیں ہوں لیکن اقبالؔ اردو ادب میں واحد روشن استثناء ہیں کہ انہوں نے ہنگامی موضوعات کو مَس کرکے بھی دائمی بنادیا۔
ایک بار پھر آپ سب کا شکریہ اداکرکے اجازت چاہتا ہوں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔





No comments:

Post a Comment